لاہور:دریائے راوی میں آنے والے سیلاب سے لوگوں کے صرف گھر، سامان اور فصلیں تباہ نہیں ہوئیں بلکہ سیلاب کا پانی کئی گھروں کے خواب اور امیدیں بھی بہا کر لے گیا ہے۔سیلاب کا پانی دریائے راوی کنارے آباد فرخ آباد، شفیق آباد، افغان کالونی، تھیم پارک سمیت درجنوں بستیوں کے نشیبی حصوں میں بنے گھروں میں جمع ہے، جس نے فرنیچر، برقی آلات، جہیز اور زندگی بھر کی جمع پونجی بہا کر رکھ دیا ہے۔سیلاب متاثرین کے چہروں پر کرب، دکھ اور بے بسی کے آثار نمایاں ہیں جبکہ امدادی سرگرمیاں جاری رہنے کے باوجود لوگوں کی ضرورتیں تاحال پوری نہیں ہو سکیں۔فرخ آباد کے رہائشی محمد یاسین نے اپنے ڈوبے ہوئے مکان کے سامنے کھڑے آنکھوں میں نمی لیے بتایا کہ ہم نے برسوں کی محنت سے یہ گھر بنایا تھا، بیٹی کے جہیز کا سامان بڑی مشکل سے خریدا تھا، سب کچھ پانی میں ڈوب گیا، اب نہ گھر بچا ہے اور نہ امید باقی رہ گئی ہے۔اسی گلی میں رہنے والی خاتون روبینہ بی بی نے دکھ بھری آواز میں کہا کہ کئی دنوں سے بچے پانی میں پڑے ہیں، کھانے کو کچھ نہیں، فریج، واشنگ مشین، ٹی وی، ہر چیز خراب ہوگئی، ہماری زندگی بھر کی جمع پونجی اور خواب سب ختم ہوگئے، حکومت کہتی ہے امداد ملے گی لیکن ابھی تک کچھ ہاتھ نہیں آیا۔شفیق آباد کے شہری عبدالغفار نے کہا کہ پانی اتنی تیزی سے آیا کہ سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا، بیوی زیور سمیٹ رہی تھی اور بچے کتابیں بچانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن سب کچھ ڈوب گیا اور ہمارے ساتھ صرف ہمارا دکھ بچا ہے۔دریا کنارے قائم ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مکین شاہد محمود نے گہرے دکھ کے ساتھ بتایا کہ مکان کے تین کمروں میں چار فٹ تک پانی بھرا ہوا ہے، ہم نے قسطوں پر گھر خریدا تھا، خواب تھا کہ یہاں سکون سے رہیں گے لیکن سیلاب نے یہ خواب بھی بہا دیا، اب ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ کہاں جائیں۔متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے، الخدمت فاؤنڈیشن اور پاکستان مرکزی مسلم لیگ کے رضا کاروں نے سیلاب زدہ بستیوں میں میڈیکل کیمپ قائم کیے ہیں اور متاثرہ خاندانوں میں کھانا تقسیم کر رہے ہیں، ان رضاکاروں کے مطابق روزانہ سیکڑوں افراد کو بنیادی طبی سہولیات اور پکا ہوا کھانا فراہم کیا جا رہا ہے۔ادھر حکومت پنجاب کی جانب سے بھی ریلیف آپریشن جاری ہے، محکمہ آب پاشی اور ضلعی انتظامیہ کے تعاون سے کشتیوں کے ذریعے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے جبکہ بعض علاقوں میں فوری طور پر خیمہ بستیاں قائم کر دی گئی ہیں۔ریلیف کمشنر کے مطابق متاثرین کو خشک راشن، خیمے اور ادویات فراہم کی جا رہی ہیں، تاہم بڑی تعداد میں متاثرین اب بھی امداد کے منتظر ہیں۔شہریوں کا کہنا ہے کہ امداد ناکافی ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ متاثرہ خاندانوں کو دوبارہ اپنے گھروں کی بحالی کے لیے مالی تعاون فراہم کیا جائے۔فرخ آباد کی ہی ایک متاثرہ خاتون نصرت بیگم، جن کا جہیز کا سامان پانی میں ضائع ہوگیا، نے جذبات سے لبریز آواز میں بتایا میری بیٹی کی شادی چند ماہ بعد تھی، صندوق بھر کے کپڑے، برتن اور فرنیچر سب کچھ بہہ گیا، اب سوچ رہی ہوں بیٹی کے سامنے کیا جواب دوں گی، یہ صرف سامان کا نقصان نہیں، ہماری عزت اور خواب سب پانی کے ساتھ بہہ گئے ہیں۔سیلاب نے ان بستیوں کے لوگوں سے صرف گھر، سامان اور معیشت ہی نہیں چھینی بلکہ ان کے خواب اور مستقبل بھی چھین لیے ہیں، بچے اپنی کتابوں سے محروم ہیں، خواتین جہیز اور گھریلو سامان کے نقصان پر غم زدہ ہیں اور مرد بے بسی کے ساتھ اپنے ٹوٹے گھروں کو دیکھ رہے ہیں۔لاہور کے قریب یہ علاقے آج انسانی المیے کی تصویر بنے ہوئے ہیں، کہیں کوئی اپنی عمر بھر کی کمائی کو پانی میں ڈوبا دیکھ کر رو رہا ہے، تو کہیں کوئی اپنے بچوں کو بھوکا دیکھ کر، ان کی آنکھوں میں بس ایک ہی سوال ہے — کیا ان کے دکھوں کا کوئی مداوابھی ہوگا۔