کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) نے صحافیوں کیخلاف پیکا ایکٹ کے بے دریغ استعمال پر تشویش کا اظہار کیا اور مقدمہ اندراج سے قبل صحافتی تنظیموں سے مشاورت کی قرارداد منظور کرلی۔کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس میں آزادی صحافت کو در پیش مسائل، پیکا ایکٹ کے من پسند بے دریغ استعمال، اشتہارات کو سرکاری کوریج سے مشروط کرنے کے غیر اعلانیہ عمل، صحافت جیسے مقدس پیشے سے وابستہ با قاعدہ صحافیوں اور خود ساختہ صحافیوں کے درمیان تفریق جیسے موضوعات پر بحث کی گئی۔ملک کے طول و عرض سے آئے اراکین مدیران نے علی احمد ڈھلوں کی اس تجویز اور قرارداد کی بھر پور حمایت کی جس میں حکومت سے پیکا ایکٹ کے تحت کسی بھی صحافی کے خلاف ایف آئی آر کے انداراج یا کارروائی سے قبل صحافتی تنظیموں سے مشاورت یا ریویوکمیٹی بنا کر شکایات کا جائزہ لینے کے عمل کو ایک ضروری امر قرار دیا گیا ہو۔کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے صدرسی پی این ای کاظم خان نے کہا کہ ہمیں حدود وقیود کے اندر رہ کر اپنے حقوق کی جنگ لڑنی ہے، کونسل کسی بھی ایسے شخص یا صحافی کی حمایت نہیں کر سکتی جو بغیر ثبوت، فیک نیوز یا ذاتی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے صحافت کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ کونسل مادر پدر آزادی کے نظریے سے ذمے دار آزادی اظہار کے نظریے کو بالکل علیحدہ کرتی ہے۔صدرسی پی این ای نے کہا کہ سی پی این ای پریس فریڈم کمیٹی کے ذمہ سب سے اہم کام مکمل تحقیق کے بعد ذمے دار صحافیوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنا ہے۔سی پی این ای کے سینئر نائب صدر ایاز خان نے کہا کہ آزادی اظہار کے حقوق کے تحفظ کے لئے پاکستان کے سب سے مستند فورم سے کسی کو غلط بیانی یا حقائق تو ڑ مروڑ کر پیش کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ عدالتی احکامات کی آڑ میں کوئی بھی سرکاری یا حکومتی عہدیدار اپنے حدود اور اختیار سے تجاوز کرے گا تو ہر فورم پر اسکا احتساب ہوگا۔انہوں نے مزید کہا کہ وزارت اطلاعات کو ہر اس فرد کے خلاف ایکشن لینا ہو گا جو حکومت اور محکمے کے لئے بدنامی کا باعث بن رہا ہو۔ کمیٹی نے ان کی اس قراداد کی کثرت رائے سے منظوری دی کہ کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹر کا کوئی بھی رکن اس وقت تک صوبائی حکومت کی کسی بھی مشاورت کا حصہ نہیں بنے گا جب تک حکومت اس امر کی وضاحت نہیں کرتی کہ وزیر اطلاعات پنجاب کی موجودگی میں کونسل کے معز ممبران کے سامنے غلط بیانی سے کام کیوں لیا گیا؟سیکرٹری جنرل غلام نبی چانڈیو نے کہا کہ ضلعی اخبارات اس وقت شدید معاشی دباؤ کا شکار ہیں۔ حکومت کو اشتہارات کی منصفانہ تقسیم کے عمل کو شفاف بنانا ہوگا۔انہوں نے مزید کہا کہ کسی ایک صحافتی گروپ کو پاکستان کے باقی صحافتی اداروں پر محض اس لئے فوقیت دینا کہ انہوں نے پچھلی حکومت میں قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کیا ہے قطعا قابل قبول نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ آزادی صحافت کے لئے دی جانے والی پر قربانی کوکونسل سلام پیش کرتی ہے مگر کاروباری بنیادوں پر جیل کاٹنے کو آزادی صحافت سے منسلک کرنا پیشہ ور بد دیانتی ہے۔بلوچستان کمیٹی کے نائب صدر عارف بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کی صحافت کو بیک وقت کئی امتحانات در پیش ہیں۔ حکومت کے مزاج کے خلاف بات چھپ جائے تو فوری طور پر اشتہارات کی غیر اعلانیہ بندش آپکا مقدر ہوتی ہے اور دوسری طرف ریاستی دہشت گرد بزور بندوق اپنا موقف چھپوانے کی کوشش کرتے ہیں اور انکار کی صورت میں بعض اوقات جان کی بازی بھی ہارنا پڑتی ہے۔خیبر پختونخوا کمیٹی کے چیئرمین طاہر فاروق نے سیلاب اور ناگہانی آفات کے باعث صوبے کے دور دراز علاقوں سے نکلنے والے اخبارات کو در پیش مسائل پرتفصیلی روشنی ڈالی۔انہوں نے حکومت کے ذمے بقایا واجبات کی ادائیگی کے لئے مؤثر حکمت عملی بنانے پر بھی زور دیا۔ ارشاد عارف نے کہا کہ صحافت اور آزادی اظہار کو جو خطرات لاحق ہیں اس میں سی پی این ای واحد تنظیم ہے جو اس کے خلاف آواز اٹھاتی رہی ہے اور اٹھاتی رہے گی۔سندھ کمیٹی کے ڈپٹی چیئرمین عامر محمود نے روز نامہ عبرت کے دفتر پر تواتر سے دہشت گردانہ حملوں اور دھمکیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور حکومت سندھ پر زور دیا کہ وہ مجرموں کو فوری گرفتار کرے۔سابق سیکرٹری جنرل اعجاز الحق نے کونسل کو بتایا کہ پنجاب حکومت اشتہارات کی پرانی ادائیگیوں کے سلسلے میں بد نام زمانہ اشتہاری ایجنسی کے ذریعے ادائیگیاں کرنا چاہتی ہے جو ہمیں کسی صورت قبول نہیں ہے۔انہوں نے کونسل میں قرار داد پیش کی کہ سی پی این ای اس اشتہاری ایجنسی میڈ اس کے خلاف مبر پبلیکیشنز کو دیئے گئے چیکس کے خلاف ایف آئی آر درج کروائے کی اجازت دے۔کمیٹی نے متفقہ طور پر اس قرارداد کی منظوری دی۔ سینئر رکن ڈاکٹر جبار خٹک نے صحافت ذمہ داری کے ساتھ کے بنیادی اصول کے حق میں گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ کونسل کے اراکین کے لئے ایک صحافتی ضابطہ اخلاق تشکیل دیا جانا بہت ضروری ہے تا کہ کم از کم کونسل کے اراکین سے خود احتسابی کے عمل کو شروع کیا جاسکے۔انہوں نے مزید کہا کہ فیک نیوز جیسی لعنت سے بچنے کے لئے معلومات تک بلا جھجک رسائی کو یقینی بنان حکومت کی ذمہ داری ہے۔اجلاس میں کونسل کے صدر کاظم خان سینئر نائب صدر ایاز خان سیکرٹری جنرل غلام نبی چانڈیو، فنانس سیکرٹری حامد حسین عابدی، انفارمیشن سیکرٹری ضیا تنولی ، نائب صدر اسلام آباد یحییٰ خان سدوزئی، نائب صدر بلوچستان منیر احمد بلوچ شریک تھے۔اس کے علاوہ جوائنٹ سیکرٹری (سندھ) منزہ سہام، جوائنٹ سیکرٹری (بلوچستان ) عارف بلوچ ، جوائنٹ سیکرٹری ( پنجاب ) وقاص طارق فاروق ، جوائنٹ سیکرٹری (اسلام آباد ) رافع نیازی ، جوائنٹ سیکرٹری (کے پی کے ) طاہر فاروق سینئر اراکین اعجاز الحق، سردار خان نیازی، ارشاد احمد عارف، عامر محمود، ڈاکٹر جبار خٹک، عبدالسمیع منگر یو علی احمد ڈھلوں مقصود یوسفی، اسلم میاں، بشیراحمد میمن ، ڈاکٹر زبیرمحمود، متازاحمد صادق فضل حق تشکیل احمدترابی، شیرمحمد کاور سید انتظار حسین زنجانی سجاد عبای تزئین اختر ذوالفقار احمد راحت ، آصف حنیف نے شرکت کی جبکہ معارج فاروق مسعود خان محمود عالم خالد اور عبد السلام ہاتھ، سید سفیر حسین شاہ ، میاں فضل الہی اور قصور جمیل روحانی بطور مبصر موجود تھے۔