Official Website

دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا منصوبہ؛ پی پی اور ن لیگ میں اختلافات شدید

3
Banner-970×250

کراچی:دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے مجوزہ منصوبے پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں اختلافات شدید ہو گئے۔سینئر وزیر سندھ شرجیل انعام میمن نے اس حوالے سے وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پانی کے انتظام پر سندھ کے خدشات بے بنیاد نہیں ہیں۔ پانی سب کا مشترکہ حق ہے، بغیر اتفاق رائے کے کوئی بھی منصوبہ شروع کرنا مناسب عمل نہیں۔انہوں نے کہا کہ 1991 کا پانی معاہدہ سندھ سمیت تمام صوبوں میں پانی کی منصفانہ تقسیم کو لازمی قرار دیتا ہے۔ عظمیٰ بخاری پہلے زمینی حقائق معلوم کریں، پھر بیان دیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ پورے پاکستان میں خوشحالی ہو اور زراعت کا شعبہ ترقی کرے۔ چھوٹے کسانوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات اور مدد کی ضرورت ہے، اس حوالے سے سندھ کا مؤقف واضح ہے۔دریں اثنا پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ چیئرمین پی پی پی نے دریائے سندھ سے 6نئی کنال نکالنے کی تجویز پر وفاقی حکومت کو اہم تجویز دی ہے۔ پانی کے معاملے پر سندھ اور بلوچستان کے لوگوں کے جائز تحفظات کو سنا جائے۔ چیئرمین پی پی نے واضح کیا ہے کہ متنازع منصوبے شروع کرنے کے بجائے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے۔انہوں نے مزید کہا کہ چیئرمین پی پی نے تجویز دی ہے کہ صوبوں کے زرعی منصوبوں کو وفاقی حکومت سنے اور اس کا متفقہ حل نکالے۔ وفاقی حکومت دریائے سندھ سے مزید نہریں نکالنے والے اپنے منصوبے پر نظر ثانی کرے۔ طاقت کے ذریعے اپنی رائے مسلط کرنے سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہوگا اور ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔شازیہ مری کا کہنا تھا کہ سندھ میں اسمارٹ ایریگیشن کے مختلف منصوبے بنائے ہیں، وفاقی حکومت انہیں سبوتاژ نہ کرے۔ سندھ اور بلوچستان کے تحفظات پر غور نہ کیا گیا تو منصوبہ متنازع ہو جائے گا۔ پی پی پی کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتظامی معاملات کے حوالے سے شکایات ہیں۔ وفاقی حکومت سیاسی عدم استحکام سے گریز کرے۔ ملک اس وقت عدم استحکام کا متحمل نہیں ہے۔ یکطرفہ فیصلے کسی بھی صورت ملک کے مفاد میں نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم فوری طور پر سی سی آئی کا اجلاس بلائیں۔ وزیراعلیٰ سندھ کے مطالبے کے باوجود سی سی آئی کا اجلاس 9ماہ سے طلب نہیں کیا گیا۔ غیر مقبول فیصلے کرنے سے وفاقی حکومت اجتناب کرے، صوبوں میں اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ کوئی بھی ایسا فیصلہ قبول نہیں کیا جائے گا جو سندھ اور بلوچستان کے کسانوں اور ان کی زراعت کے نقصان کا باعث ہو۔