Official Website

عمران خان کی لیگل ٹیم نے توشہ خانہ ون کیس احتساب عدالت واپس بھیجنے کی مخالفت کردی

1
Banner-970×250

اسلام آباد:عمران خان کی لیگل ٹیم نے توشہ خانہ ون کیس احتساب عدالت کو واپس بھیجنے کی مخالفت کر دی۔بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف توشہ خانہ ون کے کیس میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، جس کے مطابق بانی پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم نے کیس واپس احتساب عدالت کو بھیجنے کی مخالفت کر دی ہے۔بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی اپیلوں میں ان کی لیگل ٹیم نے میرٹ پر ہائی کورٹ کے سامنے ہی دلائل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں بانی پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر 27 نومبر سے کیس کے میرٹ پر دلائل کا آغاز کریں گے۔نیب کی جانب سے کیس ریمانڈ بیک کرکے احتساب عدالت کو دوبارہ سننے کا حکم دینے کی استدعا کی گئی تھی جب کہ بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی نے 31 جنوری کے احتساب عدالت سے سزا کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے، جس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ میں بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی اپیلیں زیر التوا ہیں۔واضح رہے کہ احتساب عدالت نے بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کو 14، 14 سال کی سزا سنائی تھی، جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے دونوں کی سزا کو معطل کر دیا تھا۔کیس کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت توشہ خانہ ون کیس میں سزا کے خلاف بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی اپیل پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کی، جس میں بانی پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر عدالت میں پیش ہوئے۔سماعت کے آغاز پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے بانی پی ٹی آئی سے ہدایات لے لی ہیں؟، جس پر بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ براہ راست ہدایات نہیں لے سکا مگر مجھے لیگل ٹیم سے ان ڈائریکٹ ہدایات مل گئی ہیں۔ میں اس کیس میں دلائل کا آغاز کروں گا، اور اس سے پہلے کچھ کہنا چاہوں گا۔بیرسٹر علی ظفر نے عدالت میں کہا کہ آپ نے مجھے کہا تھا کہ میں بانی پی ٹی آئی سے جیل میں ملاقات کر لوں، مگر مجھے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے سائفر کیس کی اپیل سن کر 2 ماہ میں فیصلہ کر دیا تھا۔ اس کا سائفر سے موازنہ نہیں کر سکتے کیونکہ اس میں جرح کا موقع نہیں ملا اور 342 کا بیان بھی نہیں ہوا۔ ہم نے سائفر کیس سنتے ہوئے میوزک فیس کیا ہے۔ پھر بینچ پر بات آتی ہے جی 2 ماہ ہو چکے فیصلہ نہیں ہوا۔ اس کیس میں 342 بھی نہیں ہوا کچھ گواہوں پر جرح بھی نہیں ہوئی۔ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ کیا ہم کیس کے میرٹ کی طرف جا بھی سکتے ہیں۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اس کیس میں غلطی پراسیکیوشن کی ہے، وہ میں آپ کو دکھاؤں گا۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ ایس جی ایس اور کوٹیکنا کیس میں کیس ریمانڈ بیک ہوا اور پھر اُس میں بریت ہوئی، سپریم نے کیس کو ریمانڈ بیک کیا تھا۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اس وقت حکومت بھی تبدیل ہو گئی تھی۔ یہ چاہتے ہیں دوبارہ سزا دی جائے، پھر ہم اپیل میں آئیں۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ کوٹیکنا کیس میں 7 ممبر کی ججمنٹ ہے۔ وہ کیس ریمانڈ بیک ہوا اور اس میں پھر بریت ہوئی۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پراسیکیوشن نے سب کچھ عدالت کے سامنے رکھ دیا ہے، اب بھاگ رہے ہیں، اگر فیئر ہوتا تو نیب اسی وقت کہتا کہ ٹرائل اس طرح نہ چلائیں۔ پانچ سے چھ گھنٹے میں اپنے دلائل مکمل کرلوں گا۔بعد ازاں عدالت نے سماعت 27 نومبر تک ملتوی کر دی۔ آئندہ سماعت پر بیرسٹر علی ظفر اپیلوں پر میرٹ پر دلائل گے۔