ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک سلیم اللہ نے کہا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک نے اپنی صنعتی ترقی کے لیے پورا مالی نظام خراب کیا۔انٹرنیشنل اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس کانفرنس سے ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک سلیم اللّٰہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم جس ماحول میں ہیں وہاں صرف اپنی صنعتی طاقت کو بڑھانے کیلئے ماحول کو برباد کردیا گیا ہے۔ آج سب جانتے ہیں کہ یہ بقا کا مسئلہ ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں نے اپنی صنعتی ترقی کے لیے پورے مالی نظام کو خراب کیا ہے۔ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ اسلامی بینکاری اسلام مالیاتی نظام کا محض ایک حصہ ہے۔ ہمیں محض اسلامی بینکاری کے بجائے اسلامی معاشی نظام کے قیام کی ضرورت ہے۔ حقیقی فوائد تب حاصل ہوں گے جب ہم اسلامی معاشی نظام کے اہداف کو حاصل کریں گے۔ اسلامی معاشی نظام میں سب کی فلاح وبہبود ممکن ہوسکے گی۔انہوں نے کہا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز نے اس منتقلی پر کام کرنا ہے۔ سب سے پہلے یہ یقین رکھیں جو تبدیلی لارہے ہیں وہ معنی رکھتی ہے۔ آئینی تقاضہ ہے اس لئے ایکو سسٹم مرتب ہوگا۔ امید ہے منتقلی سے حقیقی اسلامی مالیاتی نظام کا حصول ہوگا۔ہم اب بھی اسلامی بینکاری، غربت میں کمی، معاشی فلاح و بہبود کے اہداف حاصل کرنے پر یقین نہیں۔ کیا ہم نے اسلامی بینکنگ کے اہداف کو حاصل کرنے کی کوشش کی ہے شاید نہیں کی۔سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین نے اپنے خطاب میں کہا کہ نئے سسٹم میں منتقلی کیلئے وسیع منظرنامے میں معاشرے کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگر رویئے تبدیل نہ کیے گئے تو سسٹم لاگو ہونے کے باوجود پائیدار ثابت نہیں ہوگا۔ موجودہ قانونی نظام استعماریت کی باقیات ہے جو غریب کی دسترس سے باہر ہے۔ اسلامی نظام میں امیر اور غریب کو برابری کی بنیاد پر انصاف فراہم کیا جاتا ہے۔عشرت حسین کا مزید کہنا تھا کہ سوات میں طالبان کے قبضے کے بعد قاضی منصفانہ فیصلے کرتے تھے جس کی وجہ سے ان کو سپورٹ ملی۔ پاکستان کا نظامِ انصاف تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے ٹیکس کے نظام میں ایمانداری سے ٹیکس دینے والوں کو ہراساں کیا جاتا ہے نتیجے میں ٹیکس خوری جیسی خرابات جنم لیتی ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ پاکستان کا ٹیکس نظام اسلامی بینکنگ سے ساتھ چل پائے گا۔ غریب آدمی کو کسی ریگولیٹری ایجنسی تک رسائی نہیں ہے۔وائس چانسلر آئی او بی ایم بشیر جان محمد کا اس موقع پر کہنا تھا کہ متعدد بینکس کسٹمرز کی ترجیح کے بجائے اپنے منافع کو دیکھتے ہیں۔ لوگوں کو اسلامی بینکاری زیادہ محفوظ اور منافع بخش لگتا ہے۔ معاشی خوشحالی تب آئے گی جب ہم طویل مدتی قرضوں پر توجہ دیں گے۔