Official Website

توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو 3 سال قید اور ایک لاکھ جرمانے کا حکم

84
Banner-970×250

اسلام آباد: ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے جج ہمایوں دلاور نے توشہ خانہ کارروائی کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو 3 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔
توشہ خانہ کارروائی کیس کی سماعت تین مرتبہ وقفے کے بعد شروع ہوئی، جس میں چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث عدالت میں پہنچے اور بتایا کہ میں گزارشات کرنا چاہتا ہوں۔ ہمیں ہائی کورٹ میں داخلے سے روکا گیا، ہم آپ کی عدالت منتقلی کی درخواست دائر کررہے ہیں۔
عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ملزم کے خلاف الزام ثابت ہوگیا ہے۔ ملزم نے جھوٹا بیان جمع کروایا، ملزم نے جھوٹی ڈیکلریشن دی، ملزم نے الیکشن کمیشن میں جھوٹا بیان حلفی دیا۔ عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کرپٹ پریکٹسز کے مرتکب قرار دے دیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی بددیانتی ثابت ہو گئی ہے۔ عدالت نے سابق وزیراعظم کو تین سال قید کا حکم سناتے ہوئے ان پر ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کردیا۔عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کو فوری گرفتار کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ آئی جی اسلام آباد وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کروائے۔
اسلام آباد میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے فیصلے کے بعد احاطہ عدالت میں ن لیگ کے حامی وکلا کی جانب سے شدید نعرے بازی کی گئی۔
قبل ازیں توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس میں جج ہمایوں دلاور نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کو دلائل کے لیے آخری مہلت دیتے ہوئے کہا تھا کہ 12 بجے تک دلائل دیں ورنہ فیصلہ سنا دوں گا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کے عدالت میں بروقت پیش نہ ہونے پر 2 مرتبہ وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی، جس میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہمایوں دلاور کے روبرو چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث کے معاون وکیل خالد یوسف چوہدری پیش ہوئے اور انہوں نے کہا کہ خواجہ حارث احتساب عدالت میں موجود ہیں، انہوں نے مزید وقت دینے کی استدعا کی۔
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ ملزم کو حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی جائے ۔ واضح کردیں کہ خواجہ حارث احتساب عدالت میں دلائل دے رہے ہیں۔ ہمیں علم ہوا ہے کہ خواجہ حارث نے احتساب عدالت میں ڈھائی بجے کا وقت لیا ہوا ہے۔
عدالت نے کہا کہ ملزم کو واضح ہدایات تھیں کہ ساڑھے 8 بجے حاضری یقینی بنائیں۔ میں نے کہا تھا اگر ملزم پیش نہ ہوا تو وارنٹ گرفتاری جاری کریں گے۔ سیشن جج ہمایوں دلاور نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کو آخری مہلت دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ 12 بجے تک دلائل دیں ورنہ فیصلہ سنا دوں گا۔
کوئی شعر ہی سنا دیں، جج ہمایوں دلاور کی وکیلِ الیکشن کمیشن سے فرمائش
قبل ازیں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس کی سماعت شروع ہوئی تو الیکشن کمیشن کے وکلا امجد پرویز اور سعد حسن عدالت میں پیش ہوئے جب کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے کوئی وکیل پیش نہیں ہوا۔
سیشن جج ہمایوں دلاور نے امجد پرویز سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کچھ کہہ دیں، کوئی شعر ہی کہہ دیں، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے شعر سنایا
وہ ملا تو صدیوں کے بعد بھی میرے لب پہ کوئی گلہ نہ تھا
اسے میری چپ نے رلا دیا جسے گفتگو میں کمال تھا۔
بعد ازاں عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلا کو ساڑھے دس بجے تک کی مہلت دے دی۔
جج ہمایوں دلاور کی سکیورٹی بڑھا دی گئی
چیئرمین پی ٹی آئی کا ٹرائل کرنے والے جج ہمایوں دلاور کی سکیورٹی میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق جج ہمایوں دلاور کی سکیورٹی کے پولیس اسکواڈ کو بڑھا دیا گیا ہے۔ ان کے ساتھ دو پولیس اسکواڈ تعینات کردیے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ جج ہمایوں دلاور کے خلاف سوشل میڈیا پر منفی مہم بھی چلائی گئی تھی۔
تحریری فیصلہ
چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف توشہ خانہ فوج داری کارروائی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا گیا۔ تحریری فیصلہ 30 صفحات پر مشتمل ہے جسے ایڈیشنل سیشنز جج ہمایوں دلاور نے جاری کیا ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکلاء کو گواہان پر جرح کرنے کے لیے متعدد مواقع فراہم کیے گئے، عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کو گواہوں پر جرح مکمل کرنے میں 4 دن لگے، وکیل الیکشن کمیشن امجدپرویز نے 26 جولائی کو تمام شہادتیں اور شواہد مکمل کرلیے تھے، دس مئی کو گرفتار کرکے عمران خان کو عدالت لایا گیا اور فردجرم عائد کی گئی۔
تفصیلی فیصلے میں جج نے کہا ہے کہ 24 جولائی کو عمران خان 50 سے زائد وکلاء کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے، وکیل انتظار پنجوتھہ کی نعرے بازی سے عدالتی کارروائی پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی گئی، عدالتی کارروائی کو عمران خان کے وکلا نے پریشان کیا جس پر عدالت نے کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا۔
تحریری فیصلے کے مطابق خواجہ حارث کی زبانی معافی پر عدالت نے عمران خان کے وکلا کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا، عمران خان 31 جولائی کو عدالت میں پیش ہوئے، یکم اگست کو 342 کا بیان ریکارڈ کروایا، عمران خان نے سیکشن 340 کے تحت حلف پر جرح کے لیے پیش نہ ہونے کا انتخاب کیا، عمران خان نے اپنی طرف سے عدالت میں گواہان پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔
تحریری فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ دو اگست کو عمران خان کو اپنے گواہان عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا گیا، بیرسٹر گوہرعلی خان 2 اگست کو عدالت میں پیش ہوئے گواہان کی لسٹ دی اور سماعت ملتوی کرنے کی درخواست دی، عدالت نے 4 گواہان کے بیانات قلم بند کرنے کی درخواست کیس سے غیرمتعلقہ ہونے کے باعث مسترد کی۔
فیصلے میں جج نے لکھا ہے کہ عمران خان نے سوال نامے کا جواب دیتے ہوئے کہا کیس سیاسی بنیادوں پر درج کیا گیا، عمران خان کے مطابق کیس پی ڈی ایم کے کہنے پر درج کیا گیا، دونوں گواہوں کو سرکار نے استعمال کیا، عمران خان کے مطابق پی ڈی ایم انہیں 180 کیسز اور قاتلانہ حملوں کے ذریعے انتخابات سے باہر کرنا چاہتی ہے۔