Official Website

نور مقدم قتل کیس کے مجرم ظاہر جعفر کو سزائے موت کا حکم

230

اسلام آباد: عدالت نے نورمقدم قتل کیس کے مرکزی مجرم ظاہر جعفر کو سزائے موت اور دو شریک مجرموں کو دس دس سال قید کا حکم سنادیا جب کہ مجرم کے والدین ذاکر جعفر اور عصمت آدم سمیت تھراپی ورکس کے تمام ملازمین کو بری کردیا۔راولپنڈی کے ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے نور مقدم قتل کیس کا 22 فروری کو محفوظ کیا گیا مختصر فیصلہ آج سنادیا۔ فیصلے کے مطابق خاتون نور مقدم کو قتل کرنے کے جرم میں عدالت نے مرکزی مجرم ظاہر جعفر کو سزائے موت سنادی جب کہ مجرم کے والد ذاکر جعفر اور والدہ عصمت آدم کو بری کردیا گیا ہے۔فیصلے میں تھراپی ورکس کے تمام 6 ملازمین کو بھی بری کردیا گیا جب کہ جرم کی معاونت کرنے پر دو مجرموں افتخار چوکی دار اور مالی جان محمد کو دس دس قید کی سزا سنادی۔واضح رہے کہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت 12 ملزمان پر گزشتہ برس 14 اکتوبر کو فرد جرم عائد ہوئی تھی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر کیس کا ٹرائل چار ماہ کے ریکارڈ وقت میں مکمل ہوا۔
تحریری فیصلہ جاری
مختصر فیصلے کے بعد عدالت نے تحریری فیصلہ جاری کردیا جس کے مطابق ظاہر جعفر پر پانچ لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے، جرمانے کی رقم بطور معاوضہ نور مقدم کی فیملی کو دی جائے گی۔زیادتی کے جرم میں ظاہر جعفر کو 25 سال قید بامشقت کی سزا اور دو لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا ہے جب کہ اغوا کے جرم میں ظاہر جعفر کو دس سال قید با مشقت کی سزا اور ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا ہے اسی طرح نور مقدم کو حبس بے جا میں رکھنے کے جرم میں ظاہر جعفر کو ایک سال کی سزا ہوگی۔
کیس کا پس مںظراسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے 14 اکتوبر سے 14 دسمبر تک کیس دو ماہ میں مکمل کرنے کا حکم دیا جو مکمل نہ ہونے پر پہلے چھ ہفتے پھر مزید چار ہفتے کی ڈیڈ لائن دی گئی۔مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی میڈیکل گراؤنڈ پر ایک درخواست دائر ہوئی تھی جو عدالت نے مسترد کر دی تھی۔ ظاہر جعفر کو ایک بار کرسی اور اسٹریچر پر بھی عدالت میں لایا گیا۔ اس کے بعد جب اڈیالہ جیل کے ڈاکٹرز کے بورڈ نے طبی رپورٹ دی تو ظاہر جعفر کو ٹرائل کے لیے مکمل تندرست قرار دیا۔مرکزی ملزم نے اپنے لئے وکیل کے وکالت نامہ پر دستخط نہیں کئے تھے جس پر عدالت نے پہلے اسٹیٹ کونسل شہریار خان اور پھر اس کے ساتھ وکیل سکندر ذوالقرنین سلیم کو بھی اسٹیٹ کونسل مقرر کیا تھا جس نے مرکزی ملزم کی جانب سے کیس کی مکمل پیروی کی۔اپنے حتمی دلائل میں وکیل مدعی شاہ خاور نے کہا تھاکہ ’نورمقدم قتل کیس میں ڈی وی آر، سی ڈی آر، فرانزک اور ڈی این اے پر مبنی ٹھوس شواہد ہیں۔ نور مقدم قتل کیس میں تمام شواہد سائنسی طور پر شامل کیے گئے ہیں۔ ملزمان کے خلاف پراسیکیوشن نے کیس ثابت کر دیا ہے لہذا عدالت ملزمان کو سخت سے سخت سزا دے۔پبلک پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے کہا تھا اس کیس کو ملک کا بچہ بچہ دیکھ رہا ہے کہ ملک کا نظام انصاف کیسے چل رہا، عدالت اس کیس کو مثالی بنائے۔مرکزی ملزم کی والدہ اور شریک ملزم عصمت آدم جی کے وکیل اسد جمال نے دلائل میں کہا تھا کہ میری موکلہ کے خلاف کال ریکارڈ ڈیٹا کے علاوہ کوئی چیز موجود نہیں ہے جب کہ سپریم کورٹ ٹرانسکرپٹ کے بغیر کال ڈیٹا ریکارڈ کے متعلق فیصلے دے چکی ہے۔ استغاثہ یہ ثابت نہیں کر سکا کہ ملزم کے والدین کو قتل کے بارے میں علم تھا۔مرکزی ملزم کے والد اور شریک ملزم ذاکر جعفر کے وکیل بشارت اللہ نے اپنے جواب الجواب میں کہا تھا کہ اس کیس کا چشم دید گواہ ہی موجود نہیں لہذا میرے موکل کو بری کیا جائے۔342 کے بیان میں ظاہر جعفر کہا تھاکہ نور نے میرے گھر ڈرگ پارٹی رکھی تھی مجھے ہوش نہیں رہا جب ہوش آیا تو دیکھا نور کا قتل ہو چکا ہے پارٹی میں بہت سے لوگ تھے ان میں سے کسی نے نور کا قتل کر دیا۔تھراپی ورکس کے چھ ملزمان اور ذاکر جعفر کے تین ملازمین کے وکلا نے ثبوت نا ہونے کی بنا پر عدالت سے بری کرنے کی استدعا کر رکھی ہے۔