ملک میں بیشتر بلیک اکانومی چل رہی ہے، کالا پیسہ زیادہ ہے، چیف جسٹس
کراچی: چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کہا ہے کہ ملک میں بیشتر بلیک اکانومی چل رہی ہے، کالا پیسہ زیادہ ہے۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں بہادر آباد، کراچی کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی یونین رفاعی پلاٹس پر قبضے کے کیس کی سماعت ہوئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں بیشتر بلیک اکانومی چل رہی ہے، کالا پیسہ زیادہ ہے اور معیشت ڈیڈ اسٹاک پر پہنچ چکی، اس دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں، کمرشلائزیشن سے انڈسٹریز بند ہوچکیں، یہ شہر رہنے کے لیے چھوڑا نہیں، سندھی مسلم سوسائٹی کا حال تو یہ ہے کوئی چل نہیں سکتا، ہر جگہ کو کمرشلائزڈ کردیا گیا، لوگوں نے انڈسٹریز ختم کرکے پیسہ زمینوں پر لگا دیا، کمرشلائزیشن سے انڈسٹریز بند ہوگئیں، منسٹری ورکس نے تمام سوسائٹیز کے لے آؤٹ پلان غائب کردیے، ان تمام لے آؤٹ کو اب تبدیل کیا جا رہا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہر کوئی زمین پر پیسے لگا کر کما رہا ہے، اکانومی گھر، مکان اور بلڈنگز پر تبدیل ہو چکی، ہر کونے پر مارکیٹیں، دوکانیں ہی دوکانیں بنا دی گئیں، دیکھتے ہی دیکھتے کراچی کا بیڑا غرق کردیا، وزرات ورکس نے تو ہل پارک بھی اٹھا کر بیچ دیا تھا۔ دو ماہ میں کثیر المنزلہ عمارت کھڑی کر دی جاتی ہے۔شہری امبر علی بھائی نے کہا کہ یہ تمام کی تمام پارک کی اراضی تھی، میرے پاس سوسائٹی کا ماسٹر پلان موجود ہے، 2005 کے بعد پلاٹنگ کردی گئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ پلاٹس کسی رہائشی یا کمرشل سرگرمیوں کیلئے استعمال نہیں ہوسکتے ، پارکوں اور پلے گرائونڈز کیلئے مختص زمینیں کسی پرائیویٹ فرد کو الاٹ نہیں کیا جاسکتا ، وزارت ہائوسنگ کے پاس بھی رفاہی پلاٹ کی حیثیت تبدیل کرنے کا اختیار نہیں ، رفاہی پلاٹوں پر رہائشی تعمیرات خلاف قانون ہے۔عدالت نے سیکریٹری ہاؤسنگ اور جنید ماگڈا کو پلاٹس کی قانونی حیثیت سے متعلق دستاویزات پیش کرنے کیلیے ایک ماہ کی مہلت دے دی۔علاوہ ازیں گزشتہ روز نسلہ ٹاور کو توڑنے کا عمل رکوانے والے جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ہم نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جو لا اینڈ آرڈر کے خلاف ہو ، ہم نے جمہوری اور آئینی دائرے میں رہ کر بات کی ہے ، اسی لئے آج ہم سپریم کورٹ آئے ہیں۔