ضلعی انتظامیہ کر میں مکمل طور پر بے لگام ہو چکی ہے، اور یہ سب کچھ اس لئے ہو رہا ہے کہ کرک کے منتخب ممبران اسمبلی ایک دوسرے کے ٹانگیں کھینچ رہی ہے، کسی کو اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کیلئے آفسر شاہی کی خوش نودی کی ضرورت ہے،تو اپوزیشن کو حکومت میں نہ ہون کیوجہ سے آفسر شاہی سے بنا کے رکھنے کیلئے جی حضور کرنی پڑتی ہے، نتیجتاً سرکاری اداروں میں مکمل طور پر نو کر شاہی قائم ہے، اگر کہیں یہ کلاس فور محکمہ کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہیں تو کہیں ایک ہی ادارے میں دو دو ایکسین تعینات کیے گئے ہے، مہنگائی کے ستائے عوام کو اگر سبسڈائز اشیاء کیلئے ڈیلرز کے دکانوں کے سامنے قطاروں سے نجات ملے تو پھر معمولی دستخطوں کیلئے سرکاری دفاتر کے سامنے قطارمیں کھڑا ہونا پڑتا ہے، محکمہ سی اینڈ ڈبلیو ، پبلک ہیلتھ، سائل کنزرویشن ، سی اینڈ ڈبلیو، واٹر منیجمنٹ ، جنگلات، جنگلی حیات، زرعی تحقیقاتی اسٹیشن ، محکمہ زراعی توسیع سمیت جملہ سرکاری اداروں کے آفسران میٹنگز کے نام پر لمبی چھٹیاں انجوائیے کررہے ہیں تو اس کے مقابلے میں کلرکس بادشاہ محض بائیو میٹرک حاضری لگا کر چلتے ہیں۔ جبکہ دفاتر/ ادارے کلاس فور ملازمین کے حوالے کئے جا چکے ہیں، اتوار 8 نومبر کی بات اگر کی جائے تو پھر صوبائی حکومت اور الیکشن کمیشن کے واضح احکامات کے دفاتر کھلے رکھیں گے اور اُمیدواروں کو داخلوں کیلئے سہولیات سے مطلوبہ گائیڈ لائن فراہم کریں گے مگر ستم ظریفی دیکھئے کہ تحصیل کرک گزشتہ روز کروئی بھی ریٹرننگ آفیسر ، اسسٹنٹ ریٹرننگ آفیسر غائب تھے، اور محکمہ مال کے کچھ با بوئوں کو پورا الیکشن حوالے کیا گیا تھا اور ویلیج کونسل ترکی خیل کے کچھ کونسلرز کو صرف اس لیے ٹر خا یا گیا اور حل شدہ فارم کو اُردو میں کرنے سمیت بنک کے ب جائے سرکاری ملازم سے تصدیق اور غلط فارم فل کرنے کے دوبارہ فارم کے حصول کیلئے ڈپٹی کمشنر سے درخواست اور پھر الیکشن کمیشن کی باتیں کرکے ذلیل کیا گیا، کیونکہ ان لوگوں نے عملہ کی عدم موجودگی کے حوالے سے میڈیا کو شکایات کی تھی ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور عوامی نمائندگان اگر پسماندگی کے خاتمے کیلئے فنڈز نہ ہونے کا بہانہ بنائے اور مہنگائی کو دنیا کے حالات کے تناظر مین اپنے بس سے با ہر قرار دیکر گلو صلاحی کر لیتے ہیں۔لیکن انتظامی اصلاحات کیلئے تو فنڈز کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ہے، اگر ایک شخص ذمہ داری کے عوض معاوضہ وصول کر رہا ہے تو اس کو راہ راست پر لانا حکومت کی ذمہ داری ہے،تو اس کو راہ راست پر لانا حکومت کی ذمہ داری ہے، اور اگر وہ اس میں کوتاہی کریں تو عوام کو آواز اُٹھانے کا حق ہے، لیکن یہاں غفلت کے مرتکبین کے خلاف کاروائی کے ب جائے آواز اُٹھانے والوں کو تختہ مشتق بنا د یتے ہیں۔ تو ایسے لگتا ہے کہ نہ تو حکومت نام کی کوئی چیز ہے نہ ہی کرک کے نمائندگی کرنے والا کوئی نمائندہ ہے، اگر کچھ نہیں ہو سکتا ہے، تو پھر کم از کم سرکاری ملازمین کو ڈیوتی کا پابند تو کیا جائے۔