کرک اور مضافات میں کیمیکل ملا دوردھ کی کھلے عام فروخت جاری ہے،اور حوس زر میں مبتلا بیوپاری زندگی کے نام پر موت بیچنے کا کاروبار ایک عرصہ سے کمال ڈھٹائی کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اور ان لوگوں سے پوچھ گچھ کرنیوالا کوئی نہیں ہے، گو کہ اس مسئلے کے حوالے سے بار بار اخبارات میں عوام علاقہ اور عوامی حلقوں کی جانب سے انتظامیہ سے ایکشن لیکر کاروائی کرنے کی اپیل بھی کی گئی ہے مگر مجال ہے کہ کسی کے کان پر جوں تک رینگی ہو، یہی نہیں بلکہ پنجاب کے مختلف شہریوں سے ٹینکر میں سپلائی کیا جانیوالا دودھ نہ صرف جلع کرک بلکہ بانڈہ داﺅد شاہ میں تیل گیس تنصیابات میں کرم کرنیوالے ملازمین اور مز دور سمیت ہیوی ٹٹرانسپورٹ سے وابستہ ملک کےک کونے کونے کے لوگوں کو فراہم کیا جا رہا ہے یہ کاروبار صوبہ بھر کے دیگر حصوں کے مقابلے میں کرک میں زیادہ ہو رہا ہے، صرف یہی نہیں بلکہ کرک کے تقریباً تمام چھوٹے بڑے بازاروں میں قائم دکانوں پر بھی یہی دودھ اور دہی فروخت کیا جاتا ہے، جبکہ ڈاکٹرز اور ہیلتھ کے ماہرین اس دودھ اور دہی کے استعمال کو انسانی صحت کیلئے انتہا مضر قرار دے چکے ہے، بلکہ یہ سانس سینے کے بیماریوں کا باعث بھی بن رہا ہے، جبکہ اس کے مسلسل استعمال سے معدہ بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہوتا ہے، مگر مجال ہے کہ کبھی بھی کسی نے اس حوالے سے اقدامات اُٹھانے کی زحمت گواراہ کرنے کی ضرورت محسوس کی ہو یا پھر حکومتی اور انتظامی سطح پر اس حوالے سے محکمہ لائیو سٹاک سے کسی نے باز پرس کرنے کی جرات کی ہو جبکہ حکومتی سطح پر قومی نمائندگان کا مقد ہو نہ تو انتظامی اصلاحات ہوتے ہے نہ ہی عومای سہولیات ان کا واحد مقصد ہوتا ہے، پمپ ، گلی اور نالی کی تعمیر جس میں ووٹ بینک بھی بڑے اور کمیشن بھی ملے و گر نہ اگر ان سے پوچھ لیا جائے تو یہ ان ب ے چاروں کے اس کے حوالے سے علم ہو گا۔ نہ ہی یہ پتہ کہ اس کو کنٹرول کرنے کی ذمہ داری کس کی ہے، لہٰذا حکومت کو چاہےے کہ ملک ب ھر کے عوام کو کرک مین سپلائی ہونے والے کیمیکل ملا دودھ کی فروخت کے خلاف کاروائی عمل میں لائیں۔