نائیوں کیلئے نرخنامہ
یہ کیسی انتظامیہ ہے کمال کے لوگ ہیں خانہ پری تو کوئی ان لوگوں سے سیکھیں خان بہادر کرک نے کارنامہ سر انجام دیتے ہوئے درزیوں اورنائیوں کیلئے نرخنامہ مقرر کر دیا ہے اور ان کی مقررہ نرخنامے میں سے کم ریٹس مارکیٹ میں رائج ہیں انہوں نے بڑھادئیے مارکیٹ میں میں شیو کرنے کے لئے سو روپے لئے جاتے ہیں ان لوگوں نے 120 روپے کردئیے۔اٹا گھی چینی اور دیگر اشیائے ضروریہ کے نرخوں کو کنٹرول کرنا ان کے بس کی بات نہیں ہے لیکن کیا وہ میڈیکل لیبارٹریوں کے مقررہ خود ساختہ ریٹس کو کنٹرول کر سکتے ہیں کررونا کا دور میں پرائیویٹ لیبارٹریاں نےہزار روپے ٹسٹ وصول کرتے تھے لیشمینیا ڈینگی سمیت شوگر یورین ان کے نرخ 500تا1000مقررھے۔ یہاں انتہائی مجبور لوگوں کی چمڑی اتاری جاتی ہے لیکن ان کو کنٹرول کرنا ضلعی انتظامیہ کی بس کی بات نہیں ارے قصائیوں کیلئے مقررہ نرخنامے پر عملدرآمد کراسکتے ہیں۔ نہیں ناں تو پھر یہ نرخناموں کی بات ہاگر چھوڑ دی جائے تو بہتر ہوگا۔ سبزیوں کے لئے نرخنامے مقرر کرنے کا طریقہ کار پتہ ہے۔ یونین صدر علی الصبح فوٹوسٹیٹ کراکر سارے ریڑھی بانوں سےفی نرخنامہ نذرانہ وصول کرلیتا ہے۔ فروٹ اور سبزیوں کے ریٹ مقرر ہوجا تے ہیں۔ ان لوگوں کی نرخناموں سے متعلق یہ خانہ پری میرے برداشت سے باہر ہیں مگر کیا کر سکتے ہیں اس وقت تو برداشت سے بہت کچھ باہر ہوتا جارہا ہے انتظامیہ فٹ پاتھوں کو آزاد نہیں کرا سکتی ہے اتنی کمزور ضلعی انتظامیہ ہیں کہ جو کہ کیمیکل ملا دودھ کی فروخت نہیں روک سکتی یہ اتنی نااہل انتظامیہ ہے کہ نان بائیوں کو روٹی کے کم وزن کرنے کے کے انڈر دی ٹیبل اجازات نامے دیتے ہیں۔چھوڑ ان کی کارکردگی اپنی دفتر کی نالیوں کی صفائی نہیں کرا سکتے نہ ہی آفیشنل کالونی سے آوارہ کتوں کو بھگا سکتے ہیں آٹے گھی اور چینی کی بوری میں کتنا وزن کم ہوتا ہے ان لوگوں کو پتہ ہی نہیں ہیں کرک میں اگر حقیقی معنوں میں بات کی جائے تو پھر انتظامی رٹ نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے پٹواری اور بابو صاحب تھانیدار جی سے بڑھ کر عوام کی چمڑیاں ادھیڑ رہے ہیں سرکاری دفتر یا پھر دوکانیں فرق کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے اور ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو سب کچھ جانتے ہیں وہ کیسا محسوس کریں گے کہ جب ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کارکردگی کے طور پر نائیوں کیلئے مقررہ نرخناموں کوشیئر کیاجائے گا کیسے لوگ ہیں رہیگا نام اللہ کا