تیل گیس سمیت انواع اقسام کے معدنی وسائل سے مالا مال ضلع کرک کے عوام اکسویں صدی میں جبکہ دنیاچاند کے بعد تاروں کو مسخر کرنے کی منصوبہ بندیوں میں مصروف ہے، اپنے جانوروں کے ساتھ ایک بارشی تالاب سے اُس وقت پانی پی سکتے ہیں اگر جاڑہ یا بارش کم ہو تی ہے تو پھر پانی ناپید ہو جاتا ہے اب بھی ایسے دیہات موجود ہے کہ جہاں میلوں دور پہاڑی راستوں پو سفر کرکے پانی حاصل کیا جاتا ہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ حکومت ضلع کرک میں فراہمی اب کے نام فنڈز فراہم نہیں کر ر ہے ہیں۔ اگر کاغذی کاروائی کا جائزہ لیا جا ئے تو پھر یہاں پر ہر دو فٹ کے اندر ایک پائپ لائن ہونی چاہےے، عشروں سے سٹی عوام کو لواغر ڈیم سے تخت نصرتی کے عوام درگہ واٹر سپلائی سکیم اور بانڈہ کے عوام کو ممی خیل توئے سے فراہمی اب کالولی پاپ تھما یا جا چکا ہے، جو کہ ہر دور میں نئے پیک اپ اور گٹ اپ کے ساتھ پرانی پراڈکٹ ہی چلائی جا رہی ہے اور عوام بس یہ یقین کر چکے ہے کہ ان سکیموں سے ہمیں فائدہ ملے گا۔ تاہم ماہرین کے ہاں ان میں سے اکثر ڈیمز کی پانی میں معدنیات پانی ٹو کیمیکل زدہ سے نا قابل استعمال بنا چکے ہیں، ایک عرصہ سے کرک میں فراہمی اب پر خرچ ہونے والی رقم مسئلہ کو حل کرنے مین نا کام ہے، تو حکومت کو اس حوالے سے غور کرنا چاہئے کہ کیوں نا ں اس بات کا پتہ لگا یا جا ئے کہ آخر اتنے سارے فنڈز خرچ ہونے کے باوجود بھی یہ مسئلہ حل کیوں نہیں ہو رہا ہے، زیادہ سے زیادہ فنڈز خرچ ہونے کے علاوہ مسئلہ اپ بھی بڑھتا ہے ہم پہلے بھی آنہی سطور میں عرض کر چکے ہین اب بھی بتا رہے ہین کہ کرک میںحِکت کا مسئلہ زیر زمین سے ہے نہ ہی کمی کیوجہ سے ہیں، بلکہ سب کے سب ذات پرستی اور ناقص منوبہ بندی کیوجہ سے ہو رہا ہے، جو کہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ اب تک کسی وٹرنری شخصیت یا پھر لیڈر نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش نہیں کی ہےے، سب کے سب سیاسی دکانداروں نے ذاتی ووٹ بینک اورک ریڈیٹ کے چکر میں کیا ہے جو کہ بجائے عوام کے سہولت کے عوام کیلئے وبال جان بن چکے ہیں، لہٰذا حکومت سمیت عوام اور تمام سٹیک ہولڈر، سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کو چاہےے کہ وہ بجائے فنڈز کی فراہمی اور عدم فراہمی کے اپنے توانائیں ضلعی تعمیر و ترقی پر مرکوز کریں جسکے لئے پہلی سڑھی پانی کی ضرورت ہے، اس ایک مطالبہ کریں کہ پانی کی فراہمی کیلئے منصوبہ بندی کیساتھ کام کرتے ہو ئے قبل ازیں اس مسئلے کے حل کیلئے خرچ ہونے والے رقم کی تحقیقات کی جائے۔