Official Website

صدر مملکت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل نظرثانی کیلیے واپس بھجوادیا

187
Banner-970×250

اسلام آباد: صدر مملکت نے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023ء آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت نظر ثانی کے لیے پارلیمنٹ کو واپس بھجوادیا۔ایوان صدر کے پریس ونگ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق صدر مملکت نے کہا کہ بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے۔ بل قانونی طور پر مصنوعی اور ناکافی (colourable legislation) ہونے پر عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں اس بل کی درستگی کے بارے میں جانچ پڑتال پوری کرنے اور دوبارہ غور کرنے کے لیے واپس کرنا مناسب ہے۔صدر مملکت نے کہا کہ آئین سپریم کورٹ کو اپیلی ، ایڈوائزری ، ریویو اور ابتدائی اختیار سماعت سے نوازتا ہے۔ مجوزہ بل آرٹیکل 184 تین ، عدالت کے ابتدائی اختیار سماعت سے متعلق ہے۔ مجوزہ بل کا مقصد ابتدائی اختیار سماعت استعمال کرنے اور اپیل کرنے کا طریقہ فراہم کرنا ہے ۔ یہ خیال قابل تعریف ہو سکتا ہے مگر کیا اس مقصد کو آئین کی دفعات میں ترمیم کے بغیر حاصل کیا جا سکتا ہے ؟۔ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ تسلیم شدہ قانون تو یہ ہے کہ آئینی دفعات میں ایک عام قانون سازی کے ذریعے ترمیم نہیں کی جاسکتی۔ آئین ایک اعلیٰ قانون ہے ، قوانین کا باپ ہے۔ آئین کوئی عام قانون نہیں ، بلکہ بنیادی اصولوں، اعلیٰ قانون اور دیگر قوانین سے بالاتر قانون کا مجسمہ ہے۔ آرٹیکل 191 سپریم کورٹ کو عدالتی کارروائی اور طریقہ کار ریگولیٹ کرنے کے لیے قوانین بنانے کا اختیار دیتا ہے۔صدر مملکت نے کہا کہ آئین کی ان دفعات کے تحت سپریم کورٹ رولز 1980ء بنائے گئے جن کی توثیق خود آئین نے کی۔ سپریم کورٹ رولز 1980 ء پر سال 1980 ء سے عمل درآمد کیا جارہا ہے۔ جانچ شدہ قواعد میں چھیڑ چھاڑ عدالت کی اندرونی کارروائی ، خود مختاری اور آزادی میں مداخلت کے مترادف ہو سکتی ہے۔ ریاست کے تین ستونوں کے دائرہ اختیار، طاقت اور کردار کی وضاحت آئین ہی نے کی ہے۔آرٹیکل 67 کے تحت پارلیمان کو آئین کے تابع رہتے ہوئے اپنے طریقہ کار اور کاروبار کو منظم کرنے کے لیے قواعد بنانے کا اختیار حاصل ہے۔ آرٹیکل 191 کے تحت آئین اور قانون کے تابع رہتے ہوئے سپریم کورٹ اپنی کارروائی اور طریقہ کار کو ریگولیٹ کرنے کے قواعد بنا سکتی ہے۔ آرٹیکل 67 اور 191 ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ آرٹیکل 67 اور 191 قواعد بنانے میں دونوں کی خودمختاری کو تسلیم کرتے ہیں۔ آرٹیکل 67 اور 191 دونوں اداروں کو اختیارمیں مداخلت سے منع کرتے ہیں۔عدلیہ کی آزادی کو مکمل تحفظ دینے کے لیے آرٹیکل 191 کو دستور میں شامل کیا گیا۔ آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار سے باہر رکھا گیا۔ پارلیمنٹ کا قانون سازی کا اختیار بھی آئین ہی سے اخذ شدہ ہے۔ آرٹیکل 70 وفاقی قانون سازی کی فہرست میں شامل کسی بھی معاملے پر بل پیش کرنے اور منظوری سے متعلق ہے۔صدر مملکت نے کہا کہ آرٹیکل 142اے کے تحت پارلیمنٹ وفاقی قانون سازی کی فہرست میں کسی بھی معاملے پر قانون بنا سکتی ہے۔ فورتھ شیڈول کے تحت پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے علاوہ تمام عدالتوں کے دائرہ اختیار اور اختیارات کے حوالے سے قانون سازی کا اختیار ہے۔ فورتھ شیڈول کے تحت سپریم کورٹ کو خاص طور پر پارلیمان کے قانون سازی کے اختیار سے خارج کیا گیا ہے۔ بل بنیادی طور پر پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ بل کے ان پہلوؤں پر مناسب غور کرنے کی ضرورت ہے۔